سیکس کا نام لیتے ہی دماغ میں پہلا خیال ہی دخول کے بارے آتا ہے لیکن اگر حفاظتی تدبیر کے بغیر اگر اورل سیکس بھی کر لیا جائے تو اس سے بھی بہت سی جنسی طور پر پھیلنے والی بیماریاں لگ سکتی ہیں
ماہرین کے مطابق منہ میں تھوک پیدا کرنے والی جھلیون کے مادے سے رابطے میں آنے پر وائرس اور بیکٹیریا پھیلتے ہیں اور اس طریقے سے پھیلنے والے انفیکشنز میں گونوریا، سیفیلیز اور ہرپیز شامل ہیں
بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ انفیکشن اس میں پھیل چکا ہوا ہے کیونکہ اس کی علامات کسی اور انفیکشن جیسی ہوتی ہیں، سیفیلیز میں منہ میں چھالے اور جسم پر دھبے نمودار ہو جاتے ہیں
اس کے علاوہ بھی غیر محفوظ اورل سیکس سے کلائیمیڈیا ، ہیپا تائٹس اور گونوکوکل ٹونسپلانٹس کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے
ویسے تو ڈاکٹر بھی اورل سیکس کے دوران انفیکشن پھیلنے سے خبردار کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک اس کے متاثرین کی تعداد معلوم کرنا آسان نہین کیونکہ عمومی طور پر لوگ سچ بولنے سے گریز کرتے ہیں اور اصل معلومات سامنے نہیں لاتے
منہ اور جنسی اعضا کے درمیان رابطے سے بھی یہ انفیکشن پھیل سکتا ہے یہاں تک کے متاثرہ شخص کے جسم کے کسی حصے کو چھونے سے بھی یہ انفیکشن پھیل سکتا ہے مردوں میں مادہ منویہ اور اس سے پہلے آنے والے سیال مادے بھی اورل سیکس کے دوران دوسرے شخص کو متاثر کر سکتے ہیں
اسی طرخ خواتین کی اندام نہانی سے نکلنے والا مادہ بھی متاثر کر سکتا ہے ویسے خواتین اپنی ساخت کی وجہ سے زیادہ ایس ٹی آئیز سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں
اس کے علاوہ منہ یا جنسی عضو پر زخم ہو تو خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے اگر دبر کو زبان کے ذریعے متحرک کیا جائے تو اس سے ہیپاٹائٹس اے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس کے علاوہ کلائیمیڈیا، گونوریا اور دیگر جراثیم بھی پھیل سکتے ہیں
ان تمام سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسا طریقہ استعمال کیا جائے جس سے منہ کا تھوک جنسی عضو سے رابطے میں نہ آئے اور اورل سیکس کے دوران بھی کنڈومز کا استعمال کیا جائے اور خواتین اور مرد دونوں کنڈومز کا استعمال کریں اور عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے جو نوجوانوں اور نو بالغ افراد کو سمجھائیں جو کنڈوم استعمال نہیں کرتے
اور ایسے افراد جو بہت زیادہ کثرت سے سیکس یا اول سیکس کرتے ہیں وہ کم از اکم ہر 6 ماہ بعد اپنا ممکنہ انفیکشنز ٹیسٹ کروائیں