دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص
ایک دن حشر اٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کار بے کار زمانہ میں بھلایا ہوا شخص
دشت بے آب میں آواز نہ الفاظ کہیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایا ہوا شخص
جب ضرورت تھی اسی وقت مجھے کیوں نہ ملا
بس اسی ضد میں گنوا بیٹھا ہوں پایا ہوا شخص
کیا عجب خوان مقدر ہی اٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کر خوان مقدر سے اٹھایا ہوا شخص
اپنی شوریدہ مزاجی کا کروں کیا نیرؔ
روٹھ کر جا بھی چکا مان کے آیا ہوا شخص