کر لوں گا جمع دولت و زر، اس کے بعد کیا
لے لوں گا شاندار سا گھر، اس کے بعد کیا
میں کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رند
کر لوں گا مے کدوں کا سفر، اس کے بعد کیا
ہوگا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا
کرلونگا گیسوؤں میں سحر، اس کے بعد کیا
شعر و سخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دنیا میں ہوگا نام، مگر اس کے بعد کیا
موج آئے گی تو سارے جہاں کی کرونگا سیر
واپس وہی پرانا نگر، اس کے بعد کیا
ایک روز موت زیست کا در کھٹکھٹاۓ گی
بجھ جائے گا چراغ قمر، اس کے بعد کیا
اٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اس کے بعد کس کو خبر، اس کے بعد کیا