لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں پہلی انٹرنیشنل ورچوئل کانفرنس کا انعقاد
شعبہ جینڈراینڈڈویلپمنٹ سٹڈیز لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، اور فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی کے باہمی تعاون سے “صنف اور سماجی علوم تنوع، چیلنجز، اور مواقع” کے موضوع پر پہلی بین الاقوامی ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یو ایس-پاکستان یونیورسٹی پارٹنرشپ گرانٹ پروگرام اور یونائیٹڈ سٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ان پاکستان کے زیر انتظام کانفرنس کا بنیادی مقصد سماجی علوم کے مختلف شعبوں میں جینڈر کے موضوع کو سمجھنا اور اس کو فروغ دینا تھا۔
امریکی قونصلیٹ جنرل لاہور کیتھلین گبیلیسکو نے قدرتی، سماجی، انتظامی اور اپلائیڈ سائنس میں صنفی مطالعات کے نظم و ضبط کو لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔اس موقع پر وائس چانسلر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا نے منتظمین کو مبارکباد دی۔
پائیدار ترقی کے اہداف کے ساتھ پاکستان کے عزم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنفی تناظر کو سمجھے بغیر ایس ڈی جی ایز کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر بشریٰ مرزا کا کہنا تھا کہ ہم سب کو صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے سفر میں ہاتھ ملانا چاہیے
پروفیسر ڈاکٹر انیق احمد چیئرمین شعبہ نفسیات، ہینڈرسن اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ نے نفسیات کے شعبے میں صنفی اختلافات کی تحقیق کے تاریخی پس منظر کو شیئر کیا۔ برسٹل یونیورسٹی سے جغرافیہ کی پروفیسر ڈاکٹر ماریہ فینن نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا۔ فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل نے اس پہلی ورچوئل کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر شعبہ جینڈر اینڈ ڈویلپمنٹ سٹڈیز کی کاوشوں کو سراہا۔ فارمن کرسچن کالج کے فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر سکندر حیات نے پاکستان کے معاشرے میں صنفی حرکیات کو سمجھنے کے لیے سماجی علوم اور تحقیق کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر جوناتھن ایڈلٹن، ریکٹر فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی اور ڈاکٹر ڈگلس ٹرمبل۔ وائس ریکٹر ایف سی سی یو نے سماجی علوم کے اسکالرز پر زور دیا کہ وہ اپنی تحقیق میں صنفی نقطہ نظر کو شامل کریں۔ ڈاکٹر عظمیٰ عاشق، انچارج جینڈر اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز ایل سی ڈبلیو یو نے لاہور کالج فار ویمنیونیورسٹی، فارمن کرسچن کالج اور امریکی قونصلیٹ کی تمام انتظامیہ کا اس پہلی ورچوئل کانفرنس کے انعقاد میں تعاون پر شکریہ ادا کیا۔۔ اس کانفرنس میں مختلف قومی اور بین الاقوامی سماجی علوم کے محققین، سکالرز اور ماہرین تعلیم نے اپنے مقالے پیش کئے